https://www.youtube.com/watch?v=w4cCoa9GD5c
- حضورِ انور نے فرمایا کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہے جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ اللہ کی صفتِ ستار ہے جو ہماری پردہ پوشی کرتی ہے۔ اگر یہ پردہ پوشی نہ ہو تو انسان دوسروں کو منہ دکھانے کا لائق نہ رہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے استغفارر کی ہدایت دی ہے کہ اس کےذ ریعہ میں تمہارری پردہ پوشی کرونگا۔ غفر اور ستر کا مطلب چھپانا اور ڈھانکنا ہے۔
- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہ حلیم، رحیم اور غفار ہے۔ جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ ا س کے گناہ بخش دیتا ہے۔ لیکن دنیا میں اگر کوئی شخص کسی کا قصور دیکھ لیوے تو چاہے قصور کرنے والا باز بھی آ جائے پھر بھی اسے عیبی ہی سمجھتا ہے۔ لیکن اللہ کیسا کریم ہے کہ انسان کو ہزاروں عیب کے بعد بھی بخش دیتا ہے۔
- حضور نے فرمایا کہ پس اسکو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرنے چاہئیں اور خدا تعالیٰ کی صفت کی طرح دوسرے لوگوں کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔ انسان کو بہت برا لگتا ہے اسکی کوئی برائی دوسرے لوگ بیان کریں لیکن دوسروں کے عیب کو بیان کرنا بڑی بات نہیں سمجھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ وہی چیز اپنے بھائی کیلئے پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتےہو۔ ا س لئے دوسروں کے عیبوں کو دیکھ کر خود استغفارر کرنا چاہئے کہ کہیں ہمارے عیب بھی ظاہر نہ ہو جائیں۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکی پردہ پوشی فرمائےگا۔ فرمایا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر برائی ظاہر نہ کریں تو اصلاح کیسے ہو گی ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر نظام جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے توذمہ دار لوگوں کو بات پہنچا دیں تا اصلاح ہو۔ لیکن تضحیک اور مذاق کیلئے ہرگز ان باتوں کو پھیلانا نہیں چاہئے۔ جن لوگوں کے پاس تربیت یااصلا ح کا کام ہے انھیں خاص طور پر اس کا خیال کرنا چاہئے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد احادیث ے حوالے سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کا حکم دیا ہے اور اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے بڑے اجر کا قیامت کے دن وعدہ کیا ہے۔
- حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی صفتِ ستاری سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسروں کی ستاری کرنا ضروری ہے یعنی دوسروں کے عیب چھپانے چاہئیں ۔ ہمیشہ اپنے گریبان میں دیکھنا چاہئے اور اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ ہاں کمزوری دیکھ کر ا س شخص کی اصلا ح کرنی چاہئے اور یہی اصل نیکی ہے۔
- اس کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بتایا ہے کہ چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے ۔ اگر نہ مانے تو ا س کیلئے دعا کرے۔ اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو اسے قضا و قدر کا معاملہ سمجھو یعنی خدا کی یہی مرضی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا ہواہے تو تم بھی زیادہ جوش نہ دکھاؤ۔
- حضورِ انور نے فرمایا کہ کسی کا احمدی ہونا اور بیعت میں آنے سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا ہے پھر ہمیں بھی زیادہ تجسس نہیں کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ ہمیں ایسی جماعت ہونا چاہئے جو آپس میں رحم کرنے والے ہوں اور ایک دوسرے کی ستاری کرنے والے ہوں۔ ایک دوسرے کی ا س طرح مدد کریں گے تب ہی وہ حقیقی جماعت بن سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الام بنا نا چاہتے ہیں۔ اللہ کرےکہ ہم اسکی رضا حا صل کرنے والے ہوں۔
- آخر میں حضورِ انور نے ملک سلیم لطیف ایڈوکیٹ صاحب کا نمازِ جنازہ پڑھایا جو صدر جماعت ننکانہ ، پاکستان تھے۔ آپکو ایک دن قبل معاندینِ احمدیت نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔